شمعِ محفل
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا اپنوں میں کوئی غیر تو نکل
اگر ہوتے سبھی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے
دعائیں دو محبت ہم نے مٹ کر تم کو سکھلائی
نہ جلتی شمع محفل میں تو پروانہ کہاں جاتے
تمہیں نے غم کی دولت دی بڑا احسان فرمایا
زمانے بھر کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جاتے